جھنگ کے بڑے ریسٹورنٹ اور ہوٹل عوام کو سروس ٹیکس اور دیگر مد میں لوٹنے لگے ہر چیز کا ریٹ ڈبل لگاتے ہیں بل بناتے وقت ٹوٹل میں فراڈ کرتے ہیں غیر معیاری گھی مصالحہ جات استعمال کیے جاتے ہیں ذرائع کے مطابق ایک سروے میں ضلع بھر کے بڑے بڑے ریسٹورنٹ ہوٹلوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ تمام بڑے بڑے ریسٹورنٹ اور ہوٹل اپنے کھانوں میں غیر معیاری گھی ائل اور مصالحہ جات استعمال کرتے ہیں کئی کئی دن کا باسی گوشت چکن سبزیاں قیمہ گاہکوں کو کھلایا جاتا ہے ہر ریسٹورنٹ اور ہوٹل نے بڑے بڑے فریزر رکھے ہوئے ہیں جن میں کئی دن کا گوشت اور دیگر چیزیں فریز کی جاتی ہیں تمام فریزر بدبو سے بھرے ہوئے ہیں بڑے گوشت کا قیمہ اور گوشت مٹن بنا کر فروخت کیا جاتا ہے ہر بل کے ٹوٹل میں فرق ہوتا ہے جب کہا جائے تو پھر کہا جاتا ہے سوری غلطی ہو گئی سروس چارجز کے نام پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے روٹی سلاد کہ الگ پیسے وصول کیے جاتے ہیں سالانہ لاکھوں روپے کا سیل ٹیکس اور دیگر ٹیکس ہڑپ کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے غیر معیاری سبزیات گوشت مصالحہ جات وغیرہ استعمال کرنے سے عوام الناس بھی مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے پیزا شاپ شوارما شاپ وغیرہ پر مردہ چکن غیر معیاری کیچپ گھٹیا معونیز گھٹیا چیز استعمال کر کے عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے سروے میں یہ بھی بات سامنے ائی ہے کہ فوڈ اتھارٹی اور دیگر ذمہ دار محکمے کبھی کبھار ان ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ کو چیک کر کے جرمانہ وغیرہ کر کے پریس ریلیز جاری کرتے ہیں اور کاروائی ڈال کر عوام الناس اور افسران کو خوش کر دیتے ہیں جس کے بعد یہ ہوٹل اور ریسٹورنٹ وہ جرمانہ عوام الناس سے ہی ڈبل وصول کر کے پھر وہی گھٹیا مٹیریل استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں چائے دودھ دہی کے لیے مشہور دکانیں گھٹیا کیمیکل سے بنا ہوا دودھ استعمال کرتی ہیں جس سے عوام مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے شہر بھر میں دودھ 170 روپے سے لے کے 200 روپے تک فروخت ہو رہا ہے جبکہ دہی 200 روپے سے لے کر 230 روپے میں فروخت ہو رہا ہے اس دودھ اور دہی کا معیار چیک کیا جائے تو اس میں کھاد کیمیکل خشک دودھ کنولا ائل سمیت نہ جانے کتنے کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں ہائے روز فوڈ اتھارٹی کی طرف سے پریس ریلیز اتا ہے کہ اتنے ہزار لیٹر دودھ ضائع کیا گیا ہے اس کے باوجود جھنگ میں اتنا دودھ 24 گھنٹے سارا ہفتہ کیسے دستیاب ہوتا ہے کیا ارباب اختیار کو یہ سب معلوم نہیں کیا حکومت وقت کو یہ معلوم نہیں کہ یہ دودھ کی فیکٹریاں چلر با اثر سیاسی لوگوں کی ہیں سرگودھا روڈ تھانہ مسن تھانہ قادر پور منڈی شاہ جیونہ اڈا بھون تک سینکڑوں دودھ کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں جہاں دودھ تیار کیا جاتا ہے کیا محکمہ لائیو سٹاک کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ جھنگ ضلع میں دودھ کی کتنی پیداوار ہے اور فروخت کتنا ہو رہا ہے وزیراعلی مریم نواز شریف جہاں اور اچھے کام کر رہی ہیں وہاں کھانے پینے کی اشیاء کی دکانیں ریسٹورنٹ ہوٹل جالی دودھ بنانے کی فیکٹریوں پر بھی کریک ڈاؤن کریں جو نیا محکمہ پیرا بنایا گیا ہے اس کو فوری طور پر جھنگ میں ایکٹو کیا جائے اور عوام الناس کی نشاندہی پر ہوٹل ریسٹورنٹ شوارما پیزا شاپ کولڈ ڈرنک بنانے کی فیکٹریوں پاپڑ سلینٹی چپس بنانے والی چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں جہاں پر غیر معیاری گھی مصالحہ جات استعمال کیے جاتے ہیں جو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہیں ایک سروے کے مطابق ضلع بھر میں کینسر دل کی بیماریاں ہیپاٹائٹس بی سی ٹائیفائیڈ ڈینگی کی بیماری اتنی پھیل چکی ہے کہ اس کو سنبھالنا محکمہ صحت کے لیے مشکل ہو رہا ہے اور یہ وجہ ضلع جھنگ کے اندر غیر معیاری پانی کی فروخت ہے کیونکہ زیر زمین پانی بہت سارے علاقوں میں خراب ہو چکا ہے اس لیے جگہ جگہ گلیوں بازاروں میں فلٹریشن پلانٹ لگ چکے ہیں جو عوام کو فلٹر شدہ پانی فروخت کر کے منرل واٹر کے نام پر فراڈ کر رہے ہیں اور لوگوں کو مختلف بیماریوں کا شکار کر رہے ہیں اس کے متعلق بھی ضلع حکومت اور حکومت پنجاب کو بہت سنجیدگی سے سوچنا ہوگا شہر بھر کی بیکریوں مٹھائی شاپوں پر اس قسم کا مٹیریل استعمال کیا جا رہا ہے اس بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا بسکٹ رس اور دیگر چیزیں بنانے کے لیے گندے انڈے غیر معیاری معدہ گھی سوجی گھٹیا فوڈ کلر استعمال کیے جاتے ہیں ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور مسلمان ہیں ہمارا دین ایمان کیا ان چیزوں کی اجازت دیتا ہے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جس پر ہمیں بہت سوچ بچار کی ضرورت ہے؟
