122

جھنگ کا رانجھا

ویلنٹائن کا حال مجھ تک بھی بس کچھ سال پہلے ہی پہنچا ہے ورنہ وہ کافی عرصہ پہلے مر چکا تھا۔ مرنے کو تو ہر کوئی مر جاتا ہے۔ مرزا بھی مر گیا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے صاحباں بھی لیکن ویلنٹائن انوکھا ہے ، انوکھا ایسے کہ مرنے کو تو مر گیا مگر ہمارے ایمان داؤ پر لگا گیا۔ اب اصل قصہ نا جانے کیا رہا ہوگا ، لیکن ہم غریبوں سے نا جانے کیوں دشمنی اتارنے پر تلا ہوا تھا۔ہمارے ایک دوست کا تعلق ہیر رانجھا کے آبائی علاقے سے تھا جو کہ جھنگ میں واقع ہے ۔ جیسے میں نے تعارف کروایا، ان صاحب کا معروف تعارف تھا بھی یہی۔ شام ہوئی نہیں اور ہاسٹل کی چھت پر وہ جھوم جھوم کر اپنے قصبے کا حدود اربعہ اور وارث شاہ کی بیان کردہ لازوال داستان اس نیت سے سنا تے تھےکہ لوگوں کا محبت پر بھرم قائم رہے اور ہم تھے کہ سوچتے وہ نیمانا بھی کوئی محبت کا مارا ہے۔ آواز لاجواب، سر باکمال، ہم ایسے ڈوب جاتے جیسے شیرینی میں جلیبی تر رہتی ہو۔ اچھا بندہ تھا، محبت کی قدر کرتا تھا، شاعری بھی اسے پسند تھی اور گاہے بگاہے پنجابی ادب میں ہیر رانجھا کی داستان کی موجودگی کو اس کے لیے آب حیات بھی گردانتا تھا ۔ لیکن، نا جانے کیوں فروری شروع ہوتے ہی اس کی بھنویں چڑھ جاتی تھیں۔ ویلنٹائن کا نام لیا نہیں اور صاحب آپے سے باہر، اکثر فرماتے کہ ناجانے لوگ ایسے بھاؤلے کیوں ہو گئے ہیں کہ مغرب کی تقلید میں اپنا آپ بھول گئے۔ ہم گھنٹوں کڑھتے کہ ناجانے لوگ کیوں بھاؤلے ہو گئے۔ پھر مشہور زمانہ لڑمون مارکہ چائے پیتے اورصاحب کو اکیلا کڑھتا چھوڑ کر اگلی شام ہیر رانجھا کی داستان سنتے ۔

ایک بار تازہ تازہ چودہ فروری گذر کر شام کو ہیر رانجھا سنتے ہوئے بھائی صاحب سے سوال کیا، کیوں بھئی تمھیں ویلنٹائن ایک آنکھ نہیں بھاتا؟ سوال پوچھنے والے کا مقصد حسب معمول اسے تپا کر لطف حاصل کرنا تھا۔
اب صاحب نے موندھی آنکھیں کھولیں، حلق سے ہیر رانجھا کی داستان کے چلتے مصرعے کو ایک طرف رکھا اور تڑک کر بولے، “ابے بھوتنی کے! کیا یہ اسلام سے متصادم نظریات نہیں ہیں؟” بس اتنا کہا اور داستانِ ہیر رانجھا پر توجہ مرکوز کر دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں