53

بھکر ، میانوالی اور نورپور تھل وجھنگ کے علاقوں کو جنوبی صوبہ پنجاب میں شامل ہونے سے فائدہ ہو گا یا نقصان ۔۔۔۔۔ سرائیکیوں کی محرومیوں اور مسائل سے واقف صف اول کے صحافی کی ایک معلوماتی تحریر

جنوبی پنجاب صوبہ ابھی بن پائے یا نہیں، اس سے قطع نظر بہرحال یہ تو ہے کہ اس حوالے سے کچھ سنجیدہ پیش رفت ہوئی ہے۔ تحریک انصاف نے اسمبلی میں اس پر قرارداد منظورکرائی ہے جبکہ ن لیگ نے پنجاب اسمبلی میں بہاولپور صوبے کے حوالے سے ایک قرارداد جمع کرائی ہے۔

نامور کالم نگار محمد عامر خاکوانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ادھر پی ٹی آئی کے مرکزی لیڈر مخدوم شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ جنوبی پنجاب صوبہ میں ملتان، بہاولپور اور ڈی جی خان ڈویژن شامل ہوں گے۔اس سے تصویر کسی حد تک واضح ہوئی ہے اور یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ حکمران جماعت کے ذہن میں جنوبی پنجاب سے کیا تصور ہے اور وہ کن علاقوں کو اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ بعض حلقے ملتان، بہاولپور اور ڈی جی خان ڈویژنز کے ساتھ سرگودھا ڈویژنز کے دو اضلاع بھکر، میانوالی کو بھی جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل کرنے کی تجویز دے رہے ہیں، اسی طرح فیصل آباد ڈویژن کے ضلع جھنگ کو الگ کر مجوزہ نئے صوبے میں شامل کرنے سے متعلق بھی رائے موجود ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے ان ڈویژنز اور ان کے اضلاع پر ایک نظر ڈال دیتے ہیں تاکہ جنہیں اس علاقے کا علم نہیں، ان کا ذہن بھی صاف ہوجائے۔ پنجاب اس وقت نو ڈویژنز (پنڈی، لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، ساہی وال، ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان)پر مشتمل ہے،جن کے کل چھتیس اضلاع بنتے ہیں۔جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبہ کے تینوں ڈویژنز کے اضلاع گیارہ بنتے ہیں، یعنی یہ ایک لحاظ سے پنجاب کے ایک تہائی سے تھوڑا کم (تیس فیصد کے لگ بھگ)بنے گا۔ملتان کے چار اضلاع(ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی)، بہاولپور کے تین اضلاع(بہاولپور، بہاول نگر، رحیم یارخان)جبکہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے چار اضلاع(ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ ، لیہ)ہیں۔ ان تینوں ڈویژنز کو 2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی چھیالیس نشستیں ملی تھیں۔ ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔

ملتان ڈویژن کی سولہ نشستیں (ملتان6، خانیوال4 ، وہاڑی4، لودھرا ں2)بنتی ہیں۔ بہاولپور ڈویژن کے حصے میں قومی اسمبلی کی پندرہ نشستیں (بہاولپور 5، بہاول نگر 4، رحیم یار خان (6آئی تھیں۔ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں بھی قومی اسمبلی کی پندرہ نشستیں (ڈیرہ غازی خان 4، راجن پور3، مظفر گڑھ 6،لیہ2)ہیں۔این اے 150 خانیوال ا یک سے این اے 195 راجن پور تین تک یہ نشستیں چلتی ہیں۔ اس وقت پنجاب کے پاس قومی اسمبلی کی کل272 نشستوں میں سے 141 نشستیں (51.88%) ہیں، جنوبی پنجاب اگر الگ ہوگیا تو پھر پنجاب کے پاس پچانوے نشستیں(34.95) بچیں گی۔اس طرح سے چھوٹے صوبوں کا یہ احساس محرومی تو بہرحال دور ہوجائے گاکہ صرف پنجاب سے سوئپ کر کے مرکز میںحکومت بنائی جا سکتی ہے ، کیونکہ پنجاب میں شمالی پنجاب (پنڈی ڈویژن 13نشستیں)کی سیاسی تقسیم بھی موجود ہے، جس کی سیاست ضروری نہیں کہ سنٹرل پنجاب یعنی لاہور، گوجرانوالہ وغیرہ کی طرح چلے۔جنوبی پنجاب صوبہ بننے کی صورت میں سیاسی طور پر یہ ملک کا چوتھا بڑا صوبہ ہوگا۔ پنجاب کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے اور پھر خیبر پختون خوا جس کی 2018ء کے الیکشن میں 39 نشستیں تھیں، مگر فاٹا کے انضمام کے بعد، نئی آئینی ترمیم کی روسے بارہ نشستیں بڑھ جائیں گی ۔یوں کے پی کے اکاون نشستوں کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر آجائے گا، آخری نمبر بہرحال بلوچستان کا ہے، کم آبادی کے باعث اس کے پاس صرف سولہ نشستیں ہیں۔ ویسے اصول تو یہ کہتا ہے کہ جس طرح آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کی نشستیں بڑھائی گئیں، اسی طرح بلوچستان کی نشستوں میں بھی آٹھ دس کا اضافہ کرنا چاہیے کہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں